خواتین کی سنسر شدہ فلم فیسٹیول
پاؤلا کویسکان، انسانی حقوق کے وکیل / فلم ساز جنھوں
نے بحث کا آغاز کیا ۔ کویسکان اپنی
فلم، اعزاز ڈائریاں پر روشنی ڈالی ۔ یہ فلم مردانہ ثقافتوں پر توجہ دیتی ہے جس نے
ایک عورت کی عزت کی جگہ اس کے جسم ھے اور اسے جائیداد کی طرح سمجھتے ہیں ۔ ان خواتین کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں کہ کب اور کس سے شادی اور
بچے ھو، وہ ایک خاص انداز سے لباس میں ھو، اور جو اس کے ساتھ وابستہ یہ فیصلہ بھی اس کے خاندان کی طرف سے ہے۔ اگر ایک عورت اپنے معاشرے
کے اصولوں کی پیروی نہیں کرتی تو پھر وہ عورت خاندان کی طرف سے غلط شمار کی جاتی
ھے۔
اعزاز ڈائریاں فلمی میلوں کے ذریعے تیزی سے مقبول ہوئی تھی، لیکن کویسکان نے اسے ایک روڈ بلاک کے طور پر دیکھا جب کالجز نے اس کی فلم دیکھنے کو کنٹرول کرنے کی کوشش
کی اور اس کے کیمپس پر ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ۔ انہیں احساس ہوا کہ،
"ہم بھی ابھی تک وئاں نہیں ہیں" ۔ جس کا مطلب، لوگ خواتین کے مسائل حل
کرنے میں اب بھی بے چین ھے۔
کویسکان اس پلیٹ
فارم کے طور پر ایک فلم ساز کی ثقافت اور زیادتی کے مسائل کے بارے میں خواتین کی
آواز کو پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے ۔
کویسکان تعارف کے بعد، وہ ہمیں
اپنی دو ویڈیوز - "ایمان پہرے" اور "اعزاز ڈائریاں"، اور تین
منی فلمیں - "اس کھیرا"، "خاموش چیخ و پکار" اور
"تیتلیوں دکھاہی۔
آنر ڈائریوں میں عورت اداکاروں نے اپنی کہانیوں کو
بتایا کہ عزت کے نام پر تشدد کیسے ھوتی ھے
اور اس زیادتی کو ختم کرنے کے
لئے سرگرم کارکنوں کے طور پر عورتوں نےکیا اقدامات کیے۔
ایک خاتون نے وضاحت کی
کہ اس کے والدین نے اسے بتایا تھا
"آپ شادی کرے، بصورتِ دیگر ہماری نظر میں آپ
مر گے ۔ کام یا تعلیم جاری رکھنے
کے لیے بہت سی خواتین کے نام پر قتل ھونے سے خوفزدہ ہیں ۔
اعزاز ڈائریاں یہ
بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ برتاو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر اسلامی اور مسلم معاشروں میں۔
فلم میں ان مسائل
سے نمٹنے کی کوشش کی گی ھے جن میں عورتوں کے جنسی
اعضا کو کاٹنا، جبری شادی اور تشدد شامل ھے۔ کہانیوں
میں درد اور طاقت دونوں کے بارے میں زکر ہیں۔ طاقت
کے ذریعے ان خواتین کی فلمیں سنسر شپ کے خلاف مقابلہ کر سکتے ہیں، اعزاز تشدد اب بھی زیادتی
ہے ۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور آج بھی اسکا ھونا خطرے کی گھنٹی ہے ۔